حکومت کو پی ٹی آئی پر بطور سیاسی جماعت پابندی لگانے کی ضرورت کیوں پڑی، اس کی کیا وجہ ہے. اس کے ملکی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے اور کیا عمران خان کی جماعت پر پابندی لگانا ممکن ہے بھی یا نہیں؟

Urdu story
0

 


حکومت کو پی ٹی آئی پر بطور سیاسی جماعت پابندی لگانے کی ضرورت کیوں پڑی، اس کی کیا وجہ ہے. اس کے ملکی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے اور کیا عمران خان کی جماعت پر پابندی لگانا ممکن ہے بھی یا نہیں؟

تفصیلات:

عمران خان کے خلاف نئے مقدمات کا عندیہ‘: حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات سے پیچھے کیوں ہٹ رہی ہے؟

پاکستانی سیاست میں عدم استحکام کا تاثر برقرار ہے کیونکہ حکومت اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان سیاسی ڈیڈ لاک کے باعث تلخیاں کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔

حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران پی ٹی آئی کو متعدد بار مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دی مگر پی ٹی آئی نے ہر بار ان کی پیشکش کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ وہ ان سے بات چیت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اس کے ردعمل میں اب حکمران جماعت کے لوگ بھی مذاکرات کے راستے کو بند دیکھ رہے ہیں۔

البتہ ملک کے دیگر آئینی اداروں نے بھی موجودہ ملکی سیاست میں بڑھتے درجہ حرارت اور سیاسی ڈیڈ لاک کو بھانپتے ہوئے پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو ’معاملات مذاکرات کے ذریعے حل‘ کرنے کی صلاح دی ہے۔

جمعرات کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں نیب ترامیم کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی ویڈیو لنک پر پیشی کے دوران ریمارکس دیے کہ ’پارلیمنٹ میں بیٹھ کر مسائل حل کرنے اور ملک کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘

واضح رہے کہ اس مقدمے میں عمران خان کی جانب سے دلائل دیے جا رہے تھے جس کے دوران بینچ میں شامل ججوں کی جانب سے اہم ریمارکس سامنے آئے اور بظاہر مشورہ دیا گیا کہ ’سیاستدان اختلافات کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کریں۔‘

مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ وہ اب بھی مذاکرات صرف اسٹیبلشمنٹ سے کرنا چاہتے ہیں اور پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں کو اہمیت دینے اور ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنےکے لیے آمادہ نظر نہیں آتے۔

اس کی واضح مثال گذشتہ روز اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران ان کا بیان ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ان سے بات کریں گے جن کے پاس طاقت ہے۔ ان کے پاس تو طاقت ہی نہیں۔‘رانا ثنا اللہ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ’نئے مقدمات قائم‘ کرنے کا عندیہ دیا ہے

اس تمام سیاسی رسا کشی میں اب حکمران جماعت بھی پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی اپنی پیشکش سے پیچھے ہٹتی دکھائی دے رہی ہے اور وزیرِ اعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ’نئے مقدمات قائم‘ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

پاکستانی وزیرِاعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے مقامی ٹی وی چینل جیو نیوز کو حال ہی میں دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ عمران خان کے خلاف ’نئے مقدمات قائم ہوں گے، ہو رہے ہیں۔‘

انھوں نے عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے پوسٹ ہونے والی حمود الرحمان کمیشن سے متعلق ایک ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ اسے بغور دیکھیں تو اس کے اوپر مقدمہ تو بن سکتا ہے۔‘

واضح رہےکہ حال ہی میں عمران خان کے خلاف سائفر گمشدگی کے مقدمے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے انھیں بری کر دیا ہے جبکہ توشہ خانہ کیس میں ان کی 14 برس کی سزا پہلے ہی معطل کی جا چکی ہے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکمراں جماعت مذاکرات کی پیشکش سے اب کیوں پیچھے ہٹ رہی ہے اور پی ٹی آئی بات چیت کے راستے کو اپنانے سے کیوں گریزاں ہے؟

’سزا یافتہ آدمی سے بات نہیں ہو گی‘

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر مملکت طلال چوہدری نے بی بی سی سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ (پی ٹی آئی) بات ہی آرمی چیف سے کرنا چاہتے ہیں اور آئی ایس پی آر ایک پالیسی بیان جاری کر چکا ہے کہ بات سیاسی جماعتوں سے کریں۔‘

طلال چوہدری کہتے ہیں کہ ان کی حکومت پی ٹی آئی سے بات کرنے کو اب بھی تیار ہے لیکن ان کی جماعت ’کسی قسم کی بلیک میلنگ میں نہیں آئے گی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ حکومتی پیشکش کے باوجود پی ٹی آئی بات ہی نہیں کرنا چاہتی۔

’کہا جاتا ہے کہ مذاکرات کی کُنجی قیدی نمبر 804 (عمران خان) کے پاس ہے۔ حکومت کسی سزا یافتہ آدمی سے بات نہیں کرے گی، بات چیت پارلیمانی نظام کے تحت ہوگی اور جو پارلیمان میں ہیں ان سے ہو گی۔‘

مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کے مطابق پی ٹی آئی کا مقصد نو مئی اور عمران خان کے مقدمات معاف کروانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جن کیسز میں عمران خان کو ریلیف ملا ہے ان کے خلاف اپیلوں کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے عمران خان کے خلاف نئے مقدمات بنانے کی بات کیوں کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ ہم خود اس کا شکار رہے ہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’جو کیا ہے وہ تو بھگتنا پڑے گا، کیا نو مئی کیمروں کے سامنے نہیں ہوا؟ عدت والے معاملے پر کہا جاتا ہے کہ یہ ذاتی معاملہ ہے۔ اگر ذاتی معاملہ ہے تو آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین سے نکال دیں۔‘

طلال چوہدری نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’انھیں 190 ملین پاؤنڈ والے کیس میں بھی سزا ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے کیونکہ یہ ایک مضبوط کیس ہے. 

پی ٹی آئی نے کئی مہینوں سے حکومتی مذاکرات کی پیشکش پر سخت مؤقف اپنایا ہوا ہے۔

رواں ہفتے سابق صدر عارف علوی نے فیصل آباد میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’اب بھی میں کہتا ہوں کہ جو دھاندلی سے اقتدار میں آئے ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔‘


عارف علوی کا خطاب میں مزید کہنا تھا کہ ’میں گھر کی بات گھر کے مالک سے کروں گا، گھر میں جو رہ رہا ہے اس سے بات کروں گا۔ اگر چوکیدار کہتا ہے کہ میں گھر کا مالک بن گیا ہوں تو اس سے بات کروں گا۔ میں مالی سے تو بات نہیں کروں گا، باہر جو کھڑا ہوا ہے ٹھیلے والا اس سے تھوڑی بات کروں گا۔ یہ جو فارم 47 والے ہیں یہ تو ٹھیلے والے بھی نہیں ہیں

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)
To Top